ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا
تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں کمی نہ کرنا
ہماری میت پہ تم جو آنا تو چار آنسو بہا کے جانا
ذرا رہے پاس آبرو بھی کہیں ہماری ہنسی نہ کرنا
کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہی نہیں یہ رسمیں
وہاں ہے وعدے کی بھی یہ صورت کبھی تو کرنا کبھی نہ کرنا
لیے تو چلتے ہیں حضرت دل تمہیں بھی اس انجمن میں لیکن
ہمارے پہلو میں بیٹھ کر تم ہمیں سے پہلو تہی نہ کرنا
نہیں ہے کچھ قتل ان کا آساں یہ سخت جاں ہیں برے بلا کے
قضا کو پہلے شریک کرنا یہ کام اپنی خوشی نہ کرنا
ہلاک انداز وصل کرنا کہ پردہ رہ جائے کچھ ہمارا
غم جدائی میں خاک کر کے کہیں عدو کی خوشی نہ کرنا
مری تو ہے بات زہر ان کو وہ ان کے مطلب ہی کی نہ کیوں ہو
کہ ان سے جو التجا سے کہنا غضب ہے ان کو وہی نہ کرنا
ہوا اگر شوق آئنے سے تو رخ رہے راستی کی جانب
مثال عارض صفائی رکھنا برنگ کاکل کجی نہ کرنا
وہ ہی ہمارا طریق الفت کہ دشمنوں سے بھی مل کے چلنا
یہ ایک شیوہ ترا ستم گر کہ دوست سے دوستی نہ کرنا
ہم ایک رستہ گلی کا اس کی دکھا کے دل کو ہوئے پشیماں
یہ حضرت خضر کو جتا دو کسی کی تم رہبری نہ کرنا
بیان درد فراق کیسا کہ ہے وہاں اپنی یہ حقیقت
جو بات کرنی تو نالہ کرنا نہیں تو وہ بھی کبھی نہ کرنا
مدار ہے ناصحو تمہیں پر تمام اب اس کی منصفی کا
ذرا تو کہنا خدا لگی بھی فقط سخن پروری نہ کرنا
بری ہے اے داغؔ راہ الفت خدا نہ لے جائے ایسے رستے
جو اپنی تم خیر چاہتے ہو تو بھول کر دل لگی نہ کرنا
غزل
ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا
داغؔ دہلوی