EN हिंदी
ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں | شیح شیری
un ke ek jaan-nisar hum bhi hain

غزل

ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں

داغؔ دہلوی

;

ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں
ہیں جہاں سو ہزار ہم بھی ہیں

تم بھی بے چین ہم بھی ہیں بے چین
تم بھی ہو بے قرار ہم بھی ہیں

اے فلک کہہ تو کیا ارادہ ہے
عیش کے خواست گار ہم بھی ہیں

کھینچ لائے گا جذب دل ان کو
ہمہ تن انتظار ہم بھی ہیں

بزم دشمن میں لے چلا ہے دل
کیسے بے اختیار ہم بھی ہیں

شہر خالی کئے دکاں کیسی
ایک ہی بادہ خوار ہم بھی ہیں

شرم سمجھے ترے تغافل کو
واہ کیا ہوشیار ہم بھی ہیں

ہاتھ ہم سے ملاؤ اے موسیٰ
عاشق روئے یار ہم بھی ہیں

خواہش بادۂ طہور نہیں
کیسے پرہیزگار ہم بھی ہیں

تم اگر اپنی گوں کے ہو معشوق
اپنے مطلب کے یار ہم بھی ہیں

جس نے چاہا پھنسا لیا ہم کو
دلبروں کے شکار ہم بھی ہیں

آئی مے خانے سے یہ کس کی صدا
لاؤ یاروں کے یار ہم بھی ہیں

لے ہی تو لے گی دل نگاہ تری
ہر طرح ہوشیار ہم بھی ہیں

ادھر آ کر بھی فاتحہ پڑھ لو
آج زیر مزار ہم بھی ہیں

غیر کا حال پوچھئے ہم سے
اس کے جلسے کے یار ہم بھی ہیں

کون سا دل ہے جس میں داغؔ نہیں
عشق میں یادگار ہم بھی ہیں