EN हिंदी
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں | شیح شیری
sab log jidhar wo hain udhar dekh rahe hain

غزل

سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں

داغؔ دہلوی

;

سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

تیور ترے اے رشک قمر دیکھ رہے ہیں
ہم شام سے آثار سحر دیکھ رہے ہیں

میرا دل گم گشتہ جو ڈھونڈا نہیں ملتا
وہ اپنا دہن اپنی کمر دیکھ رہے ہیں

کوئی تو نکل آئے گا سر باز محبت
دل دیکھ رہے ہیں وہ جگر دیکھ رہے ہیں

ہے مجمع اغیار کہ ہنگامۂ محشر
کیا سیر مرے دیدۂ تر دیکھ رہے ہیں

اب اے نگہ شوق نہ رہ جائے تمنا
اس وقت ادھر سے وہ ادھر دیکھ رہے ہیں

ہر چند کہ ہر روز کی رنجش ہے قیامت
ہم کوئی دن اس کو بھی مگر دیکھ رہے ہیں

آمد ہے کسی کی کہ گیا کوئی ادھر سے
کیوں سب طرف راہ گزر دیکھ رہے ہیں

تکرار تجلی نے ترے جلوے میں کیوں کی
حیرت زدہ سب اہل نظر دیکھ رہے ہیں

نیرنگ ہے ایک ایک ترا دید کے قابل
ہم اے فلک شعبدہ گر دیکھ رہے ہیں

کب تک ہے تمہارا سخن تلخ گوارا
اس زہر میں کتنا ہے اثر دیکھ رہے ہیں

کچھ دیکھ رہے ہیں دل بسمل کا تڑپنا
کچھ غور سے قاتل کا ہنر دیکھ رہے ہیں

اب تک تو جو قسمت نے دکھایا وہی دیکھا
آئندہ ہو کیا نفع و ضرر دیکھ رہے ہیں

پہلے تو سنا کرتے تھے عاشق کی مصیبت
اب آنکھ سے وہ آٹھ پہر دیکھ رہے ہیں

کیوں کفر ہے دیدار صنم حضرت واعظ
اللہ دکھاتا ہے بشر دیکھ رہے ہیں

خط غیر کا پڑھتے تھے جو ٹوکا تو وہ بولے
اخبار کا پرچہ ہے خبر دیکھ رہے ہیں

پڑھ پڑھ کے وہ دم کرتے ہیں کچھ ہاتھ پر اپنے
ہنس ہنس کے مرے زخم جگر دیکھ رہے ہیں

میں داغؔ ہوں مرتا ہوں ادھر دیکھیے مجھ کو
منہ پھیر کے یہ آپ کدھر دیکھ رہے ہیں