شب وصل ضد میں بسر ہو گئی
نہیں ہوتے ہوتے سحر ہو گئی
نگہ غیر پر بے اثر ہو گئی
تمہاری نظر کو نظر ہو گئی
کسک دل میں پھر چارہ گر ہو گئی
جو تسکیں پہر دوپہر ہو گئی
لگاتے ہیں دل اس سے اب ہار جیت
ادھر ہو گئی یا ادھر ہو گئی
جواب ان کی جانب سے دینے لگا
یہ جرأت تجھے نامہ بر ہو گئی
برے حال سے یا بھلے حال سے
تمہیں کیا ہماری بسر ہو گئی
میسر ہمیں خواب راحت کہاں
ذرا آنکھ جھپکی سحر ہو گئی
جفا پر وفا تو کروں سوچ لو
تمہیں مجھ سے الفت اگر ہو گئی
نگاہ ستم میں کچھ ایجاد ہو
کہ یہ تو پرانی نظر ہو گئی
تسلی مجھے دے کے جاتے تو ہو
مبادا جو جوع دگر ہو گئی
کہیں حسن سے بھی ہے کاہیدگی
نہ ہونے کے قابل کمر ہو گئی
شب وصل ایسی کھلی چاندنی
وہ گھبرا کے بولے سحر ہو گئی
کہی زندگی بھر کی شب واردات
مری روح پیغام بر ہو گئی
کہو کیا کروگے مرے وصل کی
جو مشہور جھوٹی خبر ہو گئی
غم ہجر سے داغؔ مجھ کو نجات
یقیں تھا نہ ہوگی مگر ہو گئی
غزل
شب وصل ضد میں بسر ہو گئی
داغؔ دہلوی