اے مجھ کو فریب دینے والے
میں تجھ پہ یقین کر چکا ہوں
اطہر نفیس
اطہرؔ تم نے عشق کیا کچھ تم بھی کہو کیا حال ہوا
کوئی نیا احساس ملا یا سب جیسا احوال ہوا
اطہر نفیس
با وفا تھا تو مجھے پوچھنے والے بھی نہ تھے
بے وفا ہوں تو ہوا نام بھی گھر گھر میرا
اطہر نفیس
بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن
جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے
اطہر نفیس
دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو
اطہر نفیس
ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم
مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں
اطہر نفیس
اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا
اطہر نفیس
اک شکل ہمیں پھر بھائی ہے اک صورت دل میں سمائی ہے
ہم آج بہت سرشار سہی پر اگلا موڑ جدائی ہے
اطہر نفیس
اتنے دن کے بعد تو آیا ہے آج
سوچتا ہوں کس طرح تجھ سے ملوں
اطہر نفیس