EN हिंदी
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا | شیح شیری
wo ishq jo humse ruTh gaya ab us ka haal bataen kya

غزل

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا

اطہر نفیس

;

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا

اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں یہ شمعیں بجھانے والی ہیں
ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

اک آگ غم تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامن دل کو بچائیں کیا

ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کی ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا