سکوت شب سے اک نغمہ سنا ہے
وہی کانوں میں اب تک گونجتا ہے
غنیمت ہے کہ اپنے غمزدوں کو
وہ حسن خود نگر پہچانتا ہے
جسے کھو کر بہت مغموم ہوں میں
سنا ہے اس کا غم مجھ سے سوا ہے
کچھ ایسے غم بھی ہیں جن سے ابھی تک
دل غم آشنا نا آشنا ہے
بہت چھوٹے ہیں مجھ سے میرے دشمن
جو میرا دوست ہے مجھ سے بڑا ہے
مجھے ہر آن کچھ بننا پڑے گا
مری ہر سانس میری ابتدا ہے
غزل
سکوت شب سے اک نغمہ سنا ہے
اطہر نفیس