EN हिंदी
اسعد بدایونی شیاری | شیح شیری

اسعد بدایونی شیر

31 شیر

جسے پڑھتے تو یاد آتا تھا تیرا پھول سا چہرہ
ہماری سب کتابوں میں اک ایسا باب رہتا تھا

اسعد بدایونی




جسے نہ میری اداسی کا کچھ خیال آیا
میں اس کے حسن پہ اک روز خاک ڈال آیا

اسعد بدایونی




جم گئی دھول ملاقات کے آئینوں پر
مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی

اسعد بدایونی




جب تلک آزاد تھے ہر اک مسافت تھی وبال
جب پڑی زنجیر پیروں میں سفر اچھے لگے

اسعد بدایونی




ہوا کے اپنے علاقے ہوس کے اپنے مقام
یہ کب کسی کو ظفر یاب دیکھ سکتے ہیں

اسعد بدایونی




ہوا درختوں سے کہتی ہے دکھ کے لہجے میں
ابھی مجھے کئی صحراؤں سے گزرنا ہے

اسعد بدایونی




غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں مجھے
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے

what is it to strangers to spread this calumny
the conspiracy is the work of someone close to me

اسعد بدایونی




گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا
ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا

اسعد بدایونی




دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم
چاہنے کے لیے ایک چہرا بہت

اسعد بدایونی