EN हिंदी
اسعد بدایونی شیاری | شیح شیری

اسعد بدایونی شیر

31 شیر

جب تلک آزاد تھے ہر اک مسافت تھی وبال
جب پڑی زنجیر پیروں میں سفر اچھے لگے

اسعد بدایونی




آتے ہیں برگ و بار درختوں کے جسم پر
تم بھی اٹھاؤ ہاتھ کہ موسم دعا کا ہے

اسعد بدایونی




ہوا درختوں سے کہتی ہے دکھ کے لہجے میں
ابھی مجھے کئی صحراؤں سے گزرنا ہے

اسعد بدایونی




غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں مجھے
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے

what is it to strangers to spread this calumny
the conspiracy is the work of someone close to me

اسعد بدایونی




گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا
ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا

اسعد بدایونی




دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم
چاہنے کے لیے ایک چہرا بہت

اسعد بدایونی




چشم انکار میں اقرار بھی ہو سکتا تھا
چھیڑنے کو مجھے پھر میری انا پوچھتی ہے

اسعد بدایونی




چمن وہی کہ جہاں پر لبوں کے پھول کھلیں
بدن وہی کہ جہاں رات ہو گوارا بھی

اسعد بدایونی




بچھڑ کے تجھ سے کسی دوسرے پہ مرنا ہے
یہ تجربہ بھی اسی زندگی میں کرنا ہے

اسعد بدایونی