جب تلک آزاد تھے ہر اک مسافت تھی وبال
جب پڑی زنجیر پیروں میں سفر اچھے لگے
اسعد بدایونی
آتے ہیں برگ و بار درختوں کے جسم پر
تم بھی اٹھاؤ ہاتھ کہ موسم دعا کا ہے
اسعد بدایونی
ہوا درختوں سے کہتی ہے دکھ کے لہجے میں
ابھی مجھے کئی صحراؤں سے گزرنا ہے
اسعد بدایونی
غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں مجھے
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے
what is it to strangers to spread this calumny
the conspiracy is the work of someone close to me
اسعد بدایونی
گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا
ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا
اسعد بدایونی
دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم
چاہنے کے لیے ایک چہرا بہت
اسعد بدایونی
چشم انکار میں اقرار بھی ہو سکتا تھا
چھیڑنے کو مجھے پھر میری انا پوچھتی ہے
اسعد بدایونی
چمن وہی کہ جہاں پر لبوں کے پھول کھلیں
بدن وہی کہ جہاں رات ہو گوارا بھی
اسعد بدایونی
بچھڑ کے تجھ سے کسی دوسرے پہ مرنا ہے
یہ تجربہ بھی اسی زندگی میں کرنا ہے
اسعد بدایونی