گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا
ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا
ہم سے اے حسن ادا کب ترا حق ہو پایا
آنکھ بھر تجھ کو بزرگوں کے نہ ڈر سے دیکھا
اپنی بانہوں کی طرح مجھ کو لگیں سب شاخیں
چاند الجھا ہوا جس رات شجر سے دیکھا
ہم کسی جنگ میں شامل نہ ہوئے بس ہم نے
ہر تماشے کو فقط راہ گزر سے دیکھا
ہر چمکتے ہوئے منظر سے رہے ہم ناراض
سارے چہروں کو سدا دیدۂ تر سے دیکھا
پھول سے بچوں کے شانوں پہ تھے بھاری بستے
ہم نے اسکول کو دشمن کی نظر سے دیکھا
غزل
گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا
اسعد بدایونی