سیل گریہ کا سینے سے رشتہ بہت
یعنی ہیں اس خرابے میں دریا بہت
میں نے اس نام سے شام رنگین کی
میں نے اس کے حوالے سے سوچا بہت
دیکھنے کے لیے سارا عالم بھی کم
چاہنے کے لیے ایک چہرا بہت
اس سے آگے تو بس خواب ہی خواب تھے
میں نے اس کو مجھے اس نے دیکھا بہت
میں بھی الجھا ہوں منظر کے نیرنگ سے
میرے پیروں سے لپٹی ہے دنیا بہت
رفتگاں کے قدم جیسے آہو کا رم
جانے والوں کو رستوں نے روکا بہت
جنگجو معرکوں میں ہوئے سرخ رو
بستیاں بین کرتی ہیں تنہا بہت
غزل
سیل گریہ کا سینے سے رشتہ بہت
اسعد بدایونی