EN हिंदी
علامہ اقبال شیاری | شیح شیری

علامہ اقبال شیر

118 شیر

ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں اقبالؔ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں

علامہ اقبال




دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

علامہ اقبال




دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بیباک نہیں ہے

علامہ اقبال




دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

علامہ اقبال




ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک
ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی

علامہ اقبال




فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

علامہ اقبال




فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

علامہ اقبال




فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام رنگ و بو کر

علامہ اقبال




گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ

علامہ اقبال