باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
علامہ اقبال
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
علامہ اقبال
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
علامہ اقبال
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
علامہ اقبال
ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں اقبالؔ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
علامہ اقبال
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
علامہ اقبال
دل سوز سے خالی ہے نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بیباک نہیں ہے
علامہ اقبال
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
علامہ اقبال
ایک سرمستی و حیرت ہے سراپا تاریک
ایک سرمستی و حیرت ہے تمام آگاہی
علامہ اقبال