EN हिंदी
علامہ اقبال شیاری | شیح شیری

علامہ اقبال شیر

118 شیر

مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

علامہ اقبال




نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں

علامہ اقبال




نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

علامہ اقبال




نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

علامہ اقبال




نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ

علامہ اقبال




نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

علامہ اقبال




نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

علامہ اقبال




نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے
شکار مردہ سزاوار شاہباز نہیں

علامہ اقبال




نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

علامہ اقبال