فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
علامہ اقبال
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
علامہ اقبال
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام رنگ و بو کر
علامہ اقبال
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ
علامہ اقبال
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر
علامہ اقبال
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
علامہ اقبال
گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
علامہ اقبال
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
go beyond knowledge for its illumination
is the lamp to light the way, not the destination
علامہ اقبال
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
علامہ اقبال