من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
علامہ اقبال
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
علامہ اقبال
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
مین اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
علامہ اقبال
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
علامہ اقبال
ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
علامہ اقبال
مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں
علامہ اقبال
مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی
جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے
علامہ اقبال
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرہ جو تھے مرے عرق انفعال کے
علامہ اقبال
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہے ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
علامہ اقبال