EN हिंदी
علامہ اقبال شیاری | شیح شیری

علامہ اقبال شیر

118 شیر

من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن

علامہ اقبال




مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

علامہ اقبال




مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
مین اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا

علامہ اقبال




مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

علامہ اقبال




ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

علامہ اقبال




مرے جنوں نے زمانے کو خوب پہچانا
وہ پیرہن مجھے بخشا کہ پارہ پارہ نہیں

علامہ اقبال




مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی
جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے

علامہ اقبال




موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرہ جو تھے مرے عرق انفعال کے

علامہ اقبال




مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہے ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں

علامہ اقبال