EN हिंदी
علامہ اقبال شیاری | شیح شیری

علامہ اقبال شیر

118 شیر

نکل جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے

علامہ اقبال




پاس تھا ناکامی صیاد کا اے ہم صفیر
ورنہ میں اور اڑ کے آتا ایک دانے کے لیے

علامہ اقبال




پرانے ہیں یہ ستارے فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہیئے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز

علامہ اقبال




رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمیؑ ہے کار بے بنیاد

علامہ اقبال




روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر

On the day of reckoning when, you behold my slate
You will shame me and yourself you will humiliate

علامہ اقبال




سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

علامہ اقبال




سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

علامہ اقبال




سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے

علامہ اقبال




سو سو امیدیں بندھتی ہے اک اک نگاہ پر
مجھ کو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی

علامہ اقبال