نکل جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
علامہ اقبال
پاس تھا ناکامی صیاد کا اے ہم صفیر
ورنہ میں اور اڑ کے آتا ایک دانے کے لیے
علامہ اقبال
پرانے ہیں یہ ستارے فلک بھی فرسودہ
جہاں وہ چاہیئے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز
علامہ اقبال
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمیؑ ہے کار بے بنیاد
علامہ اقبال
روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
On the day of reckoning when, you behold my slate
You will shame me and yourself you will humiliate
علامہ اقبال
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
علامہ اقبال
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
علامہ اقبال
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
علامہ اقبال
سو سو امیدیں بندھتی ہے اک اک نگاہ پر
مجھ کو نہ ایسے پیار سے دیکھا کرے کوئی
علامہ اقبال