میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
علامہ اقبال
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
علامہ اقبال
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
علامہ اقبال
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
مین اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
علامہ اقبال
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
علامہ اقبال
مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق
علامہ اقبال
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہے ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں
علامہ اقبال
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرہ جو تھے مرے عرق انفعال کے
علامہ اقبال
نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
علامہ اقبال