جس میں انسانیت نہیں رہتی
ہم درندے ہیں ایسے جنگل کے
اجیت سنگھ حسرت
آخری امید بھی آنکھوں سے چھلکائے ہوئے
کون سی جانب چلے ہیں تیرے ٹھکرائے ہوئے
اجیت سنگھ حسرت
ہجر کا دن کیوں چڑھنے پائے
وصل کی شب طولانی کر دو
اجیت سنگھ حسرت
ہجر کا دن کیوں چڑھنے پائے
وصل کی شب طولانی کر دو
اجیت سنگھ حسرت
ہزار چپ سہی پر اس کا بولتا چہرہ
خموش رہ کے ہمیں لا جواب کر دے گا
اجیت سنگھ حسرت
ہمارے عہد کا یہ المیہ ہے
اجالے تیرگی سے ڈر گئے ہیں
اجیت سنگھ حسرت
گزرے جدھر سے نور بکھیرے چلے گئے
وہ ہم سفر ہوئے تو اندھیرے چلے گئے
اجیت سنگھ حسرت
بس ایک ہی بلا ہے محبت کہیں جسے
وہ پانیوں میں آگ لگاتی ہے آج بھی
اجیت سنگھ حسرت
بن سنور کر رہا کرو حسرتؔ
اس کی پڑ جائے اک نظر شاید
اجیت سنگھ حسرت