آخری امید بھی آنکھوں سے چھلکائے ہوئے
کون سی جانب چلے ہیں تیرے ٹھکرائے ہوئے
اپنی گلیاں اپنی بستی بھول بیٹھا ہے وہ چاند
ایک یگ گزرا ہے اس کو نور برسائے ہوئے
جستجو والے تمہاری راہ میں مر مٹ گئے
ایک مدت سے تمہیں پردیس ہیں بھائے ہوئے
اے بہار زندگی اب دیر ہے کس بات کی
باسی پھولوں کی طرح ہیں بخت مرجھائے ہوئے
دور جا نکلا کہیں سورج ہمارے شہر کا
رات بھاگی آ رہی ہے شام کے سائے ہوئے
بت بنا بیٹھا رہا حسرتؔ حضور حسن میں
کہہ گئے اپنی زباں میں اشک تھرائے ہوئے
غزل
آخری امید بھی آنکھوں سے چھلکائے ہوئے
اجیت سنگھ حسرت