گھونسلے راکھ ہو گئے جل کے
مٹ گئے سب نشان جنگل کے
آگ برسا کے اڑ گیا بادل
پر نکل آئے موئے بادل کے
چیتھڑے اوڑھ کر جو سوتا ہوں
خواب آتے ہیں مجھ کو مخمل کے
سانپ ان سے لپٹ گئے اکثر
ہم نے بوئے تھے پیڑ صندل کے
جس میں انسانیت نہیں رہتی
ہم درندے ہیں ایسے جنگل کے
جو ہوا پر سوار ہو صاحب
کب وہ چلتا ہے ساتھ پیدل کے
آؤ بچوں کا احترام کریں
یہ تو وارث ہیں صاحبو کل کے
اپنا حق بڑھ کے چھین لو یارو
یوں دکھاؤ نہ ہاتھ مل مل کے
کچھ بتاتا نہیں ترا حسرتؔ
جانے اب دل میں کیا ہے پاگل کے
غزل
گھونسلے راکھ ہو گئے جل کے
اجیت سنگھ حسرت