EN हिंदी
اجیت سنگھ حسرت شیاری | شیح شیری

اجیت سنگھ حسرت شیر

22 شیر

آخری امید بھی آنکھوں سے چھلکائے ہوئے
کون سی جانب چلے ہیں تیرے ٹھکرائے ہوئے

اجیت سنگھ حسرت




ابھی کچھ اور تری جستجو رلائے گی
ابھی کچھ اور بھٹکنا ہے در بدر مجھ کو

اجیت سنگھ حسرت




بن سنور کر رہا کرو حسرتؔ
اس کی پڑ جائے اک نظر شاید

اجیت سنگھ حسرت




بس ایک ہی بلا ہے محبت کہیں جسے
وہ پانیوں میں آگ لگاتی ہے آج بھی

اجیت سنگھ حسرت




گزرے جدھر سے نور بکھیرے چلے گئے
وہ ہم سفر ہوئے تو اندھیرے چلے گئے

اجیت سنگھ حسرت




ہمارے عہد کا یہ المیہ ہے
اجالے تیرگی سے ڈر گئے ہیں

اجیت سنگھ حسرت




ہزار چپ سہی پر اس کا بولتا چہرہ
خموش رہ کے ہمیں لا جواب کر دے گا

اجیت سنگھ حسرت




ہجر کا دن کیوں چڑھنے پائے
وصل کی شب طولانی کر دو

اجیت سنگھ حسرت




ہجر کا دن کیوں چڑھنے پائے
وصل کی شب طولانی کر دو

اجیت سنگھ حسرت