EN हिंदी
اک یاد سو رہے کو اٹھاتی ہے آج بھی | شیح شیری
ek yaad so rahe ko uThati hai aaj bhi

غزل

اک یاد سو رہے کو اٹھاتی ہے آج بھی

اجیت سنگھ حسرت

;

اک یاد سو رہے کو اٹھاتی ہے آج بھی
خود جاگتی ہے مجھ کو جگاتی ہے آج بھی

یہ کیسی مطربہ ہے جو چھپ کر جہان سے
دھیمے سروں میں رات کو گاتی ہے آج بھی

صدیاں گزر گئیں جسے ڈوبے ہوئے یہاں
اس کو صدائے شوق بلاتی ہے آج بھی

جس شہر آرزو کے نشانات مٹ گئے
دل کی نگاہ پھر وہیں جاتی ہے آج بھی

ہونٹوں پہ بار بار زباں پھیرتا تھا جو
اس قافلے کی پیاس رلاتی ہے آج بھی

پربت کی چوٹیوں پہ وہ روتی ہوئی گھٹا
کس حادثے پہ نیر بہاتی ہے آج بھی

بس ایک ہی بلا ہے محبت کہیں جسے
وہ پانیوں میں آگ لگاتی ہے آج بھی

ہر روز آ کے خواب میں پازیب کی صدا
دھڑکن ہمارے دل کی بڑھاتی ہے آج بھی

حسرتؔ کوئی تو کھو گیا عمر عزیز کا
جو ننگے پاؤں دوڑتی جاتی ہے آج بھی