عشق جنموں کا ہے سفر شاید
ختم ہوگا نہ عمر بھر شاید
آج کچا گھڑا ہے ناؤ مری
پار لگ جاؤں ڈوب کر شاید
حرف مطلب سنا کے رو دینا
کام کر جائے چشم تر شاید
خود کو ہم بارہا پکار آئے
آج ہم بھی نہیں تھے گھر شاید
اور کرنی ہے جستجو اپنی
اور پھرنا ہے در بدر شاید
کون پاگل کو کو بہ کو ڈھونڈے
پھر رہا ہو نگر نگر شاید
شب گئے اٹھ کے یاد کر اس کو
یوں دعاؤں میں ہو اثر شاید
آ کے منزل پہ سو گیا راہی
ختم ہے بس یہیں سفر شاید
بن سنور کر رہا کرو حسرتؔ
اس کی پڑ جائے اک نظر شاید
غزل
عشق جنموں کا ہے سفر شاید
اجیت سنگھ حسرت