گزرے جدھر سے نور بکھیرے چلے گئے
وہ ہم سفر ہوئے تو اندھیرے چلے گئے
اب میں ہوں اور شدت غم کی ہے تیز دھوپ
ان گیسوؤں کے سائے گھنیرے چلے گئے
میرے تفکرات کو ڈستی رہی تھی جو
ناگن چلی گئی وہ سپیرے چلے گئے
امید کے شجر پہ وہ ہلچل نہیں رہی
چڑیاں گئیں تو رین بسیرے چلے گئے
اندھے سفر کو گھر سے میں نکلا تھا دوستو
آئی جب ان کی یاد اندھیرے چلے گئے
آتش نے میرے گھر کو جلایا تو کیا ہوا
کچھ دیر کے لئے تو اندھیرے چلے گئے
حسرتؔ میں بے قرار ہوں لٹنے کے واسطے
جانے کہاں حسین لٹیرے چلے گئے
غزل
گزرے جدھر سے نور بکھیرے چلے گئے
اجیت سنگھ حسرت