EN हिंदी
لب دریا جو پیاسے مر گئے ہیں | شیح شیری
lab-e-dariya jo pyase mar gae hain

غزل

لب دریا جو پیاسے مر گئے ہیں

اجیت سنگھ حسرت

;

لب دریا جو پیاسے مر گئے ہیں
جنوں کا نام روشن کر گئے ہیں

حسینی قافلہ جب یاد آیا
کٹورے آنسوؤں سے بھر گئے ہیں

جنہیں سورج نے بھی دیکھا نہ ہوگا
وہ ننگے پاؤں ننگے سر گئے ہیں

وہ کب کے جا بسے اس پار لیکن
کئی یادیں یہاں بھی دھر گئے ہیں

جنہیں تھا شوق میلہ دیکھنے کا
وہ سارے لوگ اپنے گھر گئے ہیں

ہمارے عہد کا یہ المیہ ہے
اجالے تیرگی سے ڈر گئے ہیں

تو ان کو ڈھونڈھتا پھرتا ہے حسرتؔ
جو دنیا سے کنارا کر گئے ہیں