لب دریا جو پیاسے مر گئے ہیں
جنوں کا نام روشن کر گئے ہیں
حسینی قافلہ جب یاد آیا
کٹورے آنسوؤں سے بھر گئے ہیں
جنہیں سورج نے بھی دیکھا نہ ہوگا
وہ ننگے پاؤں ننگے سر گئے ہیں
وہ کب کے جا بسے اس پار لیکن
کئی یادیں یہاں بھی دھر گئے ہیں
جنہیں تھا شوق میلہ دیکھنے کا
وہ سارے لوگ اپنے گھر گئے ہیں
ہمارے عہد کا یہ المیہ ہے
اجالے تیرگی سے ڈر گئے ہیں
تو ان کو ڈھونڈھتا پھرتا ہے حسرتؔ
جو دنیا سے کنارا کر گئے ہیں
غزل
لب دریا جو پیاسے مر گئے ہیں
اجیت سنگھ حسرت