وہ ابرو یاد آتے ہیں وہ مژگاں یاد آتے ہیں
نہ پوچھو کیسے کیسے تیر و پیکاں یاد آتے ہیں
وہ جن کے تحت جھک جاتا تھا سر اصنام کے آگے
وہی بھولے ہوئے احکام یزداں یاد آتے ہیں
جو اکثر بار ور ہونے سے پہلے ٹوٹ جاتے تھے
وہی خستہ شکستہ عہد و پیماں یاد آتے ہیں
وہ مرمر کی طرح شفاف اور ہنستے ہوئے اعضا
حیات جاوداں کے ساز و ساماں یاد آتے ہیں
گماں ہوتا ہے وحشی نکہتوں نے بھینچ ڈالا ہے
کچھ اتنے بے محابا سنبلستاں یاد آتے ہیں
وہ گل انداز جن کا خلق سرمایہ تھا جینے کا
وہ بن بن کر چراغ محفل جاں یاد آتے ہیں
خیال آتا ہے جب بھی دلبروں کی ہم نشینی کا
تلاطم رنگ کے خوشبو کے طوفاں یاد آتے ہیں
اڑی پھرتی تھی بوسوں کی چٹک جن کی فضاؤں میں
وہ احساسات میں ڈوبے شبستاں یاد آتے ہیں
فقیہ و شیخ کے ذہنوں میں بت ہوں گے خداؤں کے
میں انساں ہوں مجھے تو صرف انساں یاد آتے ہیں
پیالہ شام کو رکھتا ہوں جب بھی میں عدمؔ آگے
جواں ہمجولیوں کے روئے خنداں یاد آتے ہیں
غزل
وہ ابرو یاد آتے ہیں وہ مژگاں یاد آتے ہیں
عبد الحمید عدم