بے جنبش ابرو تو نہیں کام چلے گا
آ کر مرے قصے میں ترا نام چلے گا
ٹھہرا ہے مرے ذہن میں جو قافلۂ گل
تھوڑا سا تو لے کر یہاں آرام چلے گا
زہاد کی مالا نہیں جو رات کو نکلے
رندوں کا پیالہ ہے سر شام چلے گا
تو رقص کرے گرد مرے اور میں گاؤں
یہ کھیل بھی اے گردش ایام چلے گا
چھپ چھپ کے جو آتا ہے ابھی میری گلی میں
اک روز مرے ساتھ سر عام چلے گا
غزل
بے جنبش ابرو تو نہیں کام چلے گا
عبد الحمید عدم