EN हिंदी
روسوہی شیاری | شیح شیری

روسوہی

16 شیر

کہیں کوئی چراغ جلتا ہے
کچھ نہ کچھ روشنی رہے گی ابھی

ابرار احمد




نئی سحر کے حسین سورج تجھے غریبوں سے واسطہ کیا
جہاں اجالا ہے سیم و زر کا وہیں تری روشنی ملے گی

ابو المجاہد زاہد




بہت سکون سے رہتے تھے ہم اندھیرے میں
فساد پیدا ہوا روشنی کے آنے سے

عالم خورشید




دیتے نہیں سجھائی جو دنیا کے خط و خال
آئے ہیں تیرگی میں مگر روشنی سے ہم

انجم رومانی




الفت کا ہے مزہ کہ اثرؔ غم بھی ساتھ ہوں
تاریکیاں بھی ساتھ رہیں روشنی کے ساتھ

اثر اکبرآبادی




روشنی جب سے مجھے چھوڑ گئی
شمع روتی ہے سرہانے میرے

اصغر ویلوری




روشنی پھیلی تو سب کا رنگ کالا ہو گیا
کچھ دیئے ایسے جلے ہر سو اندھیرا ہو گیا

آزاد گلاٹی