EN हिंदी
ذرا سی دھوپ ذرا سی نمی کے آنے سے | شیح شیری
zara si dhup zara si nami ke aane se

غزل

ذرا سی دھوپ ذرا سی نمی کے آنے سے

عالم خورشید

;

ذرا سی دھوپ ذرا سی نمی کے آنے سے
میں جی اٹھا ہوں ذرا تازگی کے آنے سے

اداس ہو گئے اک پل میں شادماں چہرے
مرے لبوں پہ ذرا سی ہنسی کے آنے سے

دکھوں کے یار بچھڑنے لگے ہیں اب مجھ سے
یہ سانحہ بھی ہوا ہے خوشی کے آنے سے

کرخت ہونے لگے ہیں بجھے ہوئے لہجے
مرے مزاج میں شائستگی کے آنے سے

بہت سکون سے رہتے تھے ہم اندھیرے میں
فساد پیدا ہوا روشنی کے آنے سے

یقین ہوتا نہیں شہر دل اچانک یوں
بدل گیا ہے کسی اجنبی کے آنے سے

میں روتے روتے اچانک ہی ہنس پڑا عالمؔ
تماش بینوں میں سنجیدگی کے آنے سے