EN हिंदी
روشنی پھیلی تو سب کا رنگ کالا ہو گیا | شیح شیری
raushni phaili to sab ka rang kala ho gaya

غزل

روشنی پھیلی تو سب کا رنگ کالا ہو گیا

آزاد گلاٹی

;

روشنی پھیلی تو سب کا رنگ کالا ہو گیا
کچھ دیئے ایسے جلے ہر سو اندھیرا ہو گیا

جس نے میرا ساتھ چھوڑا اور کسی کا ہو گیا
سچ تو یہ ہے مجھ سے بھی بڑھ کر وہ تنہا ہو گیا

وقت کا یہ موڑ کیسا ہے کہ تجھ سے مل کے بھی
تجھ کو کھو دینے کا غم کچھ اور گہرا ہو گیا

ہم نے تنہائی کی چادر تان لی اور سو گئے
لوگ جب کہنے لگے اٹھو سویرا ہو گیا

ڈوبتا سورج ہوں میں وہ میرا سایا دیکھ کر
سوچتا یہ ہے قد اس کا مجھ سے لمبا ہو گیا

چند لمحے تھے جو برسوں بعد تک بیتے نہیں
کچھ برس وہ بھی تھے جن کا ایک لمحہ ہو گیا

جب زباں کھولی تو سب کو نیند سی آنے لگی
چپ ہوئے تو یوں لگا ہر شخص بہرا ہو گیا

ساتھ اس کا چھوڑ کر آئے تو یہ عالم رہا
ہم نے جس چہرے کو دیکھا اس کا چہرہ ہو گیا

اس تعلق کو بھلا آزادؔ میں کیا نام دوں
وہ کسی کا ہو کے بھی کچھ اور میرا ہو گیا