قفس سے چھٹنے پہ شاد تھے ہم کہ لذت زندگی ملے گی
یہ کیا خبر تھی بہار گلشن لہو میں ڈوبی ہوئی ملے گی
جن اہل ہمت کے راستوں میں بچھائے جاتے ہیں آج کانٹے
انہی کے خون جگر سے رنگیں چمن کی ہر اک کلی ملے گی
وہ دن بھی تھے جب اندھیری راتوں میں بھی قدم راہ راست پر تھے
اور آج جب روشنی ملی ہے تو زیست بھٹکی ہوئی ملے گی
نئی سحر کے حسین سورج تجھے غریبوں سے واسطہ کیا
جہاں اجالا ہے سیم و زر کا وہیں تری روشنی ملے گی
کبھی تو نسل و وطن پرستی کی تیرگی کو شکست ہوگی
کبھی تو شام الم مٹے گی کبھی تو صبح خوشی ملے گی
وہ ہم نہیں ہیں کہ صرف اپنے ہی گھر میں شمعیں جلا کے بیٹھیں
وہاں وہاں روشنی کریں گے جہاں جہاں تیرگی ملے گی
تلاش منزل کا عزم محکم دلیل منزل رسی ہے زاہدؔ
قدم تو اپنے بڑھاؤ آگے کھلی ہوئی راہ بھی ملے گی
غزل
قفس سے چھٹنے پہ شاد تھے ہم کہ لذت زندگی ملے گی
ابو المجاہد زاہد