EN हिंदी
کچھ اجنبی سے لوگ تھے کچھ اجنبی سے ہم | شیح شیری
kuchh ajnabi se log the kuchh ajnabi se hum

غزل

کچھ اجنبی سے لوگ تھے کچھ اجنبی سے ہم

انجم رومانی

;

کچھ اجنبی سے لوگ تھے کچھ اجنبی سے ہم
دنیا میں ہو نہ پائے شناسا کسی سے ہم

دیتے نہیں سجھائی جو دنیا کے خط و خال
آئے ہیں تیرگی میں مگر روشنی سے ہم

یاں تو ہر اک قدم پہ خلل ہے حواس کا
اے خضر باز آئے تری ہم رہی سے ہم

دیتے ہیں لوگ آج اسے شاعری کا نام
پڑھتے تھے لوح دل پہ کچھ آشفتگی سے ہم

رہتی ہے انجمؔ ایک زمانے سے گفتگو
کرتے نہیں کلام بظاہر کسی سے ہم