تجھ سے وابستگی رہے گی ابھی
دل کو یہ بیکلی رہے گی ابھی
سر کو دیوار ہی نہیں ملتی
سو یہ دیوانگی رہے گی ابھی
کوئی دن فرصت تمنا ہے
کوئی دن سر خوشی رہے گی ابھی
کاسۂ عمر بھر چکا پھر بھی
کہیں کوئی کمی رہے گی ابھی
شب وہی ہے جمال خواب وہی
آنکھ اپنی لگی رہے گی ابھی
جس قیامت کی آمد آمد ہے
وہ قیامت ٹلی رہے گی ابھی
ہم یقیناً یہاں نہیں ہوں گے
غالباً زندگی رہے گی ابھی
کچھ ابھی رنج آرزو ہے ہمیں
آنکھ میں کچھ نمی رہے گی ابھی
تو ابھی مبتلائے دنیا نہیں
تجھ میں یہ سادگی رہے گی ابھی
لا تعلق ہوں اس تعلق سے
اور یہ دوستی رہے گی ابھی
جی اچٹتا نہیں ہے لگتا نہیں
سو یہ بیگانگی رہے گی ابھی
کہیں کوئی چراغ جلتا ہے
کچھ نہ کچھ روشنی رہے گی ابھی
غزل
تجھ سے وابستگی رہے گی ابھی
ابرار احمد