اغیار کو گل پیرہنی ہم نے عطا کی
اپنے لیے پھولوں کا کفن ہم نے بنایا
نشور واحدی
انجام وفا یہ ہے جس نے بھی محبت کی
مرنے کی دعا مانگی جینے کی سزا پائی
نشور واحدی
بڑی حسرت سے انساں بچپنے کو یاد کرتا ہے
یہ پھل پک کر دوبارہ چاہتا ہے خام ہو جائے
نشور واحدی
دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر
مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے
نشور واحدی
دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے
چلے آؤ جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے
the lamp's extinguised but someone's heart
نشور واحدی
دنیا کی بہاروں سے آنکھیں یوں پھیر لیں جانے والوں نے
جیسے کوئی لمبے قصے کو پڑھتے پڑھتے اکتا جائے
نشور واحدی
ایک رشتہ بھی محبت کا اگر ٹوٹ گیا
دیکھتے دیکھتے شیرازہ بکھر جاتا ہے
نشور واحدی
گناہ گار تو رحمت کو منہ دکھا نہ سکا
جو بے گناہ تھا وہ بھی نظر ملا نہ سکا
نشور واحدی
ہے شام ابھی کیا ہے بہکی ہوئی باتیں ہیں
کچھ رات ڈھلے ساقی مے خانہ سنبھلتا ہے
نشور واحدی