ہزار شمع فروزاں ہو روشنی کے لیے
نظر نہیں تو اندھیرا ہے آدمی کے لیے
نشور واحدی
ہستی کا نظارہ کیا کہئے مرتا ہے کوئی جیتا ہے کوئی
جیسے کہ دوالی ہو کہ دیا جلتا جائے بجھتا جائے
نشور واحدی
حقیقت جس جگہ ہوتی ہے تابانی بتاتی ہے
کوئی پردے میں ہوتا ہے تو چلمن جگمگاتی ہے
نشور واحدی
ہم روایات کو پگھلا کے نشورؔ
اک نئے فن کے قریب آ پہنچے
نشور واحدی
ہم نے بھی نگاہوں سے انہیں چھو ہی لیا ہے
آئینہ کا رخ جب وہ ادھر کرتے رہے ہیں
نشور واحدی
ہے شام ابھی کیا ہے بہکی ہوئی باتیں ہیں
کچھ رات ڈھلے ساقی مے خانہ سنبھلتا ہے
نشور واحدی
گناہ گار تو رحمت کو منہ دکھا نہ سکا
جو بے گناہ تھا وہ بھی نظر ملا نہ سکا
نشور واحدی
ایک رشتہ بھی محبت کا اگر ٹوٹ گیا
دیکھتے دیکھتے شیرازہ بکھر جاتا ہے
نشور واحدی
دنیا کی بہاروں سے آنکھیں یوں پھیر لیں جانے والوں نے
جیسے کوئی لمبے قصے کو پڑھتے پڑھتے اکتا جائے
نشور واحدی