پیراہن رنگیں سے شعلہ سا نکلتا ہے
معصوم ہے کیا جانے دامن کہیں جلتا ہے
میری مژۂ غم پر لرزاں ہے حقیقت سی
ان کے لب لعلیں پر افسانہ مچلتا ہے
اچھی ہے رہے تھوڑی یہ جلوہ طرازی بھی
رقص مہ و انجم میں دیوانہ بہلتا ہے
عنوان ترقی ہے یہ تیرہ فضائی بھی
کچھ گرد بھی اٹھتی ہے جب قافلہ چلتا ہے
ہے شام ابھی کیا ہے بہکی ہوئی باتیں ہیں
کچھ رات ڈھلے ساقی مے خانہ سنبھلتا ہے
بس دیکھ چکی دنیا یہ بزم فروزی بھی
رکھا ہے چراغ ایسا بجھتا ہے نہ جلتا ہے
اک سحر شبستاں ہے یہ فن جہاں رانی
دنیا ہے کہ سوتی ہے جادو ہے کہ چلتا ہے
افلاس کے آنسو سے طوفاں بھی لرزتے ہیں
شعلوں کا جگر گویا شبنم سے دہلتا ہے
مطرب بہ لب لعلیں ساقی بہ مے و مینا
اس گرمئ محفل میں ایمان پگھلتا ہے
غزل
پیراہن رنگیں سے شعلہ سا نکلتا ہے
نشور واحدی