وقت کا قافلہ آتا ہے گزر جاتا ہے
آدمی اپنی ہی منزل میں ٹھہر جاتا ہے
ایک بگڑی ہوئی قسمت پہ نہ ہنسنا اے دوست
جانے کس وقت یہ انسان سنور جاتا ہے
اس طرف عیش کی شمعیں تو ادھر دل کے چراغ
دیکھنا یہ ہے کہ پروانہ کدھر جاتا ہے
جام و صہبا کی مجھے فکر نہیں اے غم دل
میرا پیمانہ تو اشکوں ہی سے بھر جاتا ہے
ایک رشتہ بھی محبت کا اگر ٹوٹ گیا
دیکھتے دیکھتے شیرازہ بکھر جاتا ہے
حال میرے لیے ہے لمحۂ آئندہ نشورؔ
وقت شاعر کے لیے پہلے گزر جاتا ہے
غزل
وقت کا قافلہ آتا ہے گزر جاتا ہے
نشور واحدی