گناہ گار تو رحمت کو منہ دکھا نہ سکا
جو بے گناہ تھا وہ بھی نظر ملا نہ سکا
طرب ہے شیوۂ رندان عاقبت نا شناس
جو گل نہ تھا وہ گلستاں میں مسکرا نہ سکا
بہت خفیف تھی کون و مکاں کی جلوہ گری
مری نگاہ کا گوشہ بھی جگمگا نہ سکا
حوالۂ نگۂ شرمگیں ہوئیں آخر
وہ بجلیاں جو کہیں آسماں گرا نہ سکا
بدیعہ کار ہے ذہن خرد پسند مگر
تصورات سے تصویر غم بنا نہ سکا
عجب نہیں کہ گلستاں میں پا بہ گل رہ جائے
وہ بد نصیب جو رمز خرام پا نہ سکا
جیا وہ پاک جو رکھتا تھا خار پیراہن
جو گل بہ جیب تھا دامن کبھی بچا نہ سکا
نشورؔ نازکیٔ طبع شعر کیا کہئے
جہاں میں رہ کے زمانے کے ناز اٹھا نہ سکا
غزل
گناہ گار تو رحمت کو منہ دکھا نہ سکا
نشور واحدی