ہم روایات کو پگھلا کے نشورؔ
اک نئے فن کے قریب آ پہنچے
نشور واحدی
اغیار کو گل پیرہنی ہم نے عطا کی
اپنے لیے پھولوں کا کفن ہم نے بنایا
نشور واحدی
ہے شام ابھی کیا ہے بہکی ہوئی باتیں ہیں
کچھ رات ڈھلے ساقی مے خانہ سنبھلتا ہے
نشور واحدی
گناہ گار تو رحمت کو منہ دکھا نہ سکا
جو بے گناہ تھا وہ بھی نظر ملا نہ سکا
نشور واحدی
ایک رشتہ بھی محبت کا اگر ٹوٹ گیا
دیکھتے دیکھتے شیرازہ بکھر جاتا ہے
نشور واحدی
دنیا کی بہاروں سے آنکھیں یوں پھیر لیں جانے والوں نے
جیسے کوئی لمبے قصے کو پڑھتے پڑھتے اکتا جائے
نشور واحدی
دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے
چلے آؤ جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے
the lamp's extinguised but someone's heart
نشور واحدی
دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر
مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے
نشور واحدی
بڑی حسرت سے انساں بچپنے کو یاد کرتا ہے
یہ پھل پک کر دوبارہ چاہتا ہے خام ہو جائے
نشور واحدی