باغ میں جا کر دیکھ لیا
کوئی نہیں تھا تجھ سا پھول
جمیل ملک
دل کی قیمت تو محبت کے سوا کچھ بھی نہ تھی
جو ملے صورت زیبا کے خریدار ملے
جمیل ملک
ایک ذرا سی بھول پہ ہم کو اتنا تو بد نام نہ کر
ہم نے اپنے گھاؤ چھپا کر تیرے کاج سنوارے ہیں
جمیل ملک
ہم سے کوئی تعلق خاطر تو ہے اسے
وہ یار با وفا نہ سہی بے وفا تو ہے
جمیل ملک
ہم تو تمام عمر تری ہی ادا رہے
یہ کیا ہوا کہ پھر بھی ہمیں بے وفا رہے
جمیل ملک
جاں نذر کی تو دونوں جہاں مل گئے ہمیں
طے مرگ و زندگی کا ہر اک مرحلہ ہوا
جمیل ملک
کیسے تھے لوگ جن کی زبانوں میں نور تھا
اب تو تمام جھوٹ ہے سچائیوں میں بھی
جمیل ملک
ختم ہو جائیں جنہیں دیکھ کے بیماری دل
ڈھونڈ کر لائیں کہاں سے وہ مسیحا چہرے
جمیل ملک
کتنے ہاتھوں نے تراشے یہ حسیں تاج محل
جھانکتے ہیں در و دیوار سے کیا کیا چہرے
جمیل ملک