راہ طلب میں آج یہ کیا معجزہ ہوا
خواب عدم میں جو بھی گیا جاگتا ہوا
میداں میں ہار جیت کا یوں فیصلہ ہوا
دنیا تھی ان کے ساتھ ہمارا خدا ہوا
برسوں کی دوستی کا چلن کیا سے کیا ہوا
کس منہ سے ہم ملیں گے اگر سامنا ہوا
صدیوں کا درد وقت کی آواز بن گیا
پھر سے بپا وہ معرکۂ کربلا ہوا
لایا ہے رنگ خون شہیداں بہ فیض شوق
نظروں کے سامنے ہے گلستاں کھلا ہوا
پتھر بنے ہوئے تھے زباں دے گیا ہمیں
احساس کی رگوں میں لہو بولتا ہوا
راہیں سمٹ سمٹ کے نگاہوں میں آ گئیں
جو بھی قدم اٹھا وہی منزل نما ہوا
آنکھوں میں مشعلیں ہیں فروزاں دوام کی
دل میں ہے تیری یاد کا کانٹا چبھا ہوا
تو منزل حیات سے آگے نکل گیا
میں آ رہا ہوں تیرا پتہ پوچھتا ہوا
جاں نذر کی تو دونوں جہاں مل گئے ہمیں
طے مرگ و زندگی کا ہر اک مرحلہ ہوا
یوں دل میں آج نور کی بارش ہوئی جمیلؔ
جیسے کوئی چراغ جلا دے بجھا ہوا
غزل
راہ طلب میں آج یہ کیا معجزہ ہوا
جمیل ملک