محفلیں خواب ہوئیں رہ گئے تنہا چہرے
وقت نے چھین لیے کتنے شناسا چہرے
ساری دنیا کے لیے ایک تماشا چہرے
دل تو پردے میں رہے ہو گئے رسوا چہرے
تم وہ بے درد کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا ان کو
ورنہ کرتے رہے کیا کیا نہ تقاضا چہرے
کتنے ہاتھوں نے تراشے یہ حسیں تاج محل
جھانکتے ہیں در و دیوار سے کیا کیا چہرے
سوئے پتوں کی طرح جاگتی کلیوں کی طرح
خاک میں گم تو کبھی خاک سے پیدا چہرے
خود ہی ویرانئ دل خود ہی چراغ محفل
کبھی محروم تمنا کبھی شیدا چہرے
خاک اڑتی بھی رہی ابر برستا بھی رہا
ہم نے دیکھے کبھی صحرا کبھی دریا چہرے
یہی امروز بھی ہنگامۂ فردا بھی یہی
پیش کرتے رہے ہر دور کا نقشہ چہرے
دیپ جلتے ہی رہے طاق پہ ارمانوں کے
کتنی صدیوں سے ہے ہر گھر کا اجالا چہرے
ختم ہو جائیں جنہیں دیکھ کے بیماری دل
ڈھونڈ کر لائیں کہاں سے وہ مسیحا چہرے
داستاں ختم نہ ہوگی کبھی چہروں کی جمیلؔ
حسن یوسف تو کبھی عشق زلیخا چہرے
غزل
محفلیں خواب ہوئیں رہ گئے تنہا چہرے
جمیل ملک