گل پیرہن رہے کہ دریدہ قبا رہے
جس حال میں رہے ترا نقش بقا رہے
ہم تو تمام عمر تری ہی ادا رہے
یہ کیا ہوا کہ پھر بھی ہمیں بے وفا رہے
چاہی جو تو نے بات وہی بات ہم نے کی
تیری زباں بنے ترے دل کی صدا رہے
تو ساتھ ساتھ تھا تو خدائی بھی ساتھ تھی
اپنی رفاقتوں کے نشاں جا بجا رہے
تجھ کو بھلا کے بھی نہ تجھے ہم بھلا سکے
نا آشنا وہ تھے کہ جہاں آشنا رہے
سب دیکھتے تھے پھر بھی کوئی دیکھتا نہ تھا
سب کے لیے رسا تھے مگر نارسا رہے
لب پر ہو شکوہ ریز تبسم بجھا ہوا
دل میں مگر کسی کی محبت سوا رہے
تصویر کی طرح تری صورت ہو رو بہ رو
تصویر بن کے کوئی تجھے دیکھتا رہے
دل تنگ ہو تو وسعت عالم بھی تنگ تر
دنیا بہت کھلی ہے اگر دل میں جا رہے
لگتے ہی آنکھ رات کے ہنگامے سو گئے
جاگے تھے جتنی دیر قیامت بپا رہے
پھولوں نے جا کے سیج سجائی تمام رات
کانٹے چمن کے سب مرے دامن میں آ رہے
یہ جشن نا خدا ہے کہ موجوں کا رقص ہے
کشتی ہو غرق آب مگر نا خدا رہے
کہنے کو ایک لفظ مرے پاس ہے جمیلؔ
جب لے اڑے وہ بات مرے پاس کیا رہے
غزل
گل پیرہن رہے کہ دریدہ قبا رہے
جمیل ملک