EN हिंदी
رستے میں لٹ گیا ہے تو کیا قافلہ تو ہے | شیح شیری
raste mein luT gaya hai to kya qafila to hai

غزل

رستے میں لٹ گیا ہے تو کیا قافلہ تو ہے

جمیل ملک

;

رستے میں لٹ گیا ہے تو کیا قافلہ تو ہے
یارو نئے سفر کا ابھی حوصلہ تو ہے

واماندگی سے اٹھ نہیں سکتا تو کیا ہوا
منزل سے آشنا نہ سہی نقش پا تو ہے

ہاتھوں میں ہاتھ لے کے یہاں سے گزر چلیں
قدموں میں پل صراط سہی راستا تو ہے

مانگے کی روشنی تو کوئی روشنی نہیں
اس دور مستعار میں اپنا دیا تو ہے

یہ کیا ضرور ہے میں کہوں اور تو سنے
جو میرا حال ہے وہ تجھے بھی پتا تو ہے

اپنی شکایتیں نہ سہی تیرا غم سہی
اظہار داستاں کا کوئی سلسلہ تو ہے

ہم سے کوئی تعلق خاطر تو ہے اسے
وہ یار با وفا نہ سہی بے وفا تو ہے

وہ آئے یا نہ آئے ملاقات ہو نہ ہو
رنگ سحر کے پاس خرام صبا تو ہے

پاؤں کی چاپ سے مری دھڑکن ہے ہم نوا
اس دشت ہول میں کوئی نغمہ سرا تو ہے

سورج ہمارے گھر نہیں آیا تو کیا ہوا
دو چار آنگنوں میں اجالا ہوا تو ہے

کانٹا نکل بھی جائے گا جب وقت آئے گا
کانٹے کے دل میں بھی کوئی کانٹا چبھا تو ہے

میں ریزہ ریزہ اڑتا پھروں گا ہوا کے ساتھ
صدیوں میں جھانک کر بھی مجھے دیکھنا تو ہے

آشوب آگہی کی شب بے کنار میں
تیرے لیے جمیلؔ کوئی سوچتا تو ہے