EN हिंदी
دل کی دل نے نہ کہی یوں تو کئی بار ملے | شیح شیری
dil ki dil ne na kahi yun to kai bar mile

غزل

دل کی دل نے نہ کہی یوں تو کئی بار ملے

جمیل ملک

;

دل کی دل نے نہ کہی یوں تو کئی بار ملے
ہم شناسا تھے مگر صورت اغیار ملے

اس سے کہنا کہ نہ اب اور وہ اترا کے چلے
دوستو تم کو اگر یار طرحدار ملے

بے وفا ہم ہیں تو اے جان وفا یونہی سہی
ڈھونڈ لینا جو تمہیں کوئی وفادار ملے

ہم تو دل دے کے بھی دنیا میں اکیلے ہی رہے
جو ہوس کار تھے سب ان کے طرف دار ملے

دل کی قیمت تو محبت کے سوا کچھ بھی نہ تھی
جو ملے صورت زیبا کے خریدار ملے

ہم نے کانٹوں کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے
خار بھی ہم سے برنگ گل گلزار ملے

دوریاں فاصلے ہو جاتے ہیں طے آخر کار
سر گلزار جو بچھڑے تھے سر دار ملے