EN हिंदी
ڈوبا ہوا ہوں درد کی گہرائیوں میں بھی | شیح شیری
Duba hua hun dard ki gahraiyon mein bhi

غزل

ڈوبا ہوا ہوں درد کی گہرائیوں میں بھی

جمیل ملک

;

ڈوبا ہوا ہوں درد کی گہرائیوں میں بھی
میں خندہ زن ہوں کھوکھلی دانائیوں میں بھی

عریاں ہے سارا شہر چلی یوں ہوس کی لہر
تجھ کو چھپا رہا ہوں میں تنہائیوں میں بھی

کیسے تھے لوگ جن کی زبانوں میں نور تھا
اب تو تمام جھوٹ ہے سچائیوں میں بھی

اب نیک نامیوں میں بھی کوئی مزا نہیں
پہلے تو ایک لطف تھا رسوائیوں میں بھی

وہ دوڑ ہے کسی کو کسی کی خبر نہیں
اب کتنی غیریت ہے شناسائیوں میں بھی

رنگین ساعتوں میں کہاں وہ ملاحتیں
پرچھائیوں کا جال ہے رعنائیوں میں بھی

ہم جن کے واسطے تھے تماشا بنے ہوئے
دیکھا تو وہ نہیں تھے تماشائیوں میں بھی

میں ہی تھا وہ جو اپنے ہی تیشے سے مر گیا
ہی ہی تھا شہر جبر کے بلوائیوں میں بھی

کیا دور ہے کہ جس میں صدا بھی سکوت ہے
تنہائیاں ہیں انجمن آرائیوں میں بھی

وہ پیار دو کہ جس کی چمک ماند ہی نہ ہو
ہوتا ہے یہ خلوص تو ہرجائیوں میں بھی

ساز و صدا کے شور میں گم ہو گیا جمیلؔ
کس کس کے دل کا درد تھا شہنائیوں میں بھی