دل کو معلوم ہے کیا بات بتانی ہے اسے
اس سے کیا بات چھپانی ہے زباں جانتی ہے
ارشد عبد الحمید
غم جہان و غم یار دو کنارے ہیں
ادھر جو ڈوبے وہ اکثر ادھر نکل آئے
ارشد عبد الحمید
حلقۂ دل سے نہ نکلو کہ سر کوچۂ خاک
عیش جتنے ہیں اسی کنج کم آثار میں ہیں
ارشد عبد الحمید
ہمیں تو شمع کے دونوں سرے جلانے ہیں
غزل بھی کہنی ہے شب کو بسر بھی کرنا ہے
ارشد عبد الحمید
حویلی چھوڑنے کا وقت آ گیا ارشدؔ
ستوں لرزتے ہیں اور چھت کی مٹی گرتی ہے
ارشد عبد الحمید
عشق مرہون حکایات و گماں بھی ہوگا
واقعہ ہے تو کسی طور بیاں بھی ہوگا
ارشد عبد الحمید
خدا کرے یہ روشنی پڑے کبھی نہ ماند
گالوں پر وہ لکھ گیا آدھے آدھے چاند
ارشد عبد الحمید
کس کس کو سمجھائے گا یہ نادانی چھوڑ
چہرے کو سندر بنا آئینہ مت توڑ
ارشد عبد الحمید
کچھ ستارے مری پلکوں پہ چمکتے ہیں ابھی
کچھ ستارے مرے سینے میں سمائے ہوئے ہیں
ارشد عبد الحمید