جنس مخلوط ہیں اور اپنے ہی آزار میں ہیں
ہم کہ سرکار سے باہر ہیں نہ سرکار میں ہیں
آب آتے ہی چمک اٹھتے ہیں سب نقش و نگار
خاک میں بھی وہی جوہر ہیں جو تلوار میں ہیں
سب فروشندۂ حیرت ہوں ضروری تو نہیں
ہم سے بے زار بھی اس رونق بازار میں ہیں
حلقۂ دل سے نہ نکلو کہ سر کوچۂ خاک
عیش جتنے ہیں اسی کنج کم آثار میں ہیں
ہو چکا عدل دکاں بند کر اے تاجر حق
یہ سزا کم ہے کہ حاضر ترے دربار میں ہیں
غزل
جنس مخلوط ہیں اور اپنے ہی آزار میں ہیں
ارشد عبد الحمید