EN हिंदी
ملے جو اس سے تو یادوں کے پر نکل آئے | شیح شیری
mile jo us se to yaadon ke par nikal aae

غزل

ملے جو اس سے تو یادوں کے پر نکل آئے

ارشد عبد الحمید

;

ملے جو اس سے تو یادوں کے پر نکل آئے
اس اک مقام پہ کتنے سفر نکل آئے

اجاڑ دشت میں بس جائے میری ویرانی
عجب نہیں کہ یہیں کوئی گھر نکل آئے

بس ایک لمحے کو چمکی تھی اس کی تیغ نظر
خلائے وقت میں قرنوں کے سر نکل آئے

مچان باندھنے والے نشانہ چوک گئے
کہ خود مچان کی جانب سے ڈر نکل آئے

شہید کوئے محبت ہیں کانپ جاتے ہیں
ندیم خیر سے کوئی اگر نکل آئے

درخت صبر بریدہ سہی پہ جانتے ہیں
ہوا ہے یہ بھی کہ اس پر ثمر نکل آئے

عدو کے ہاتھ بھی تیغ و تبر سے خالی ہیں
عجیب کیا ہے جو ہم بے سپر نکل آئے

غم جہان و غم یار دو کنارے ہیں
ادھر جو ڈوبے وہ اکثر ادھر نکل آئے

یہاں تو اہل ہنر کے بھی پانو جلتے ہیں
یہ راہ شعر ہے ارشدؔ کدھر نکل آئے